ٹول بار پر جائیں
Uncategorized

لاک ڈاؤن کی صورت میں عیدالفطر کی نماز کیسے ادا کریں ؟

مقبول احمد سلفی

سلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ (طائف)

تاریخ نے ایسا وقت کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ عالمی پیمانے پر مسلمانوں کی عبادت گاہیں مسلسل کئی ماہ تک ویران رہی ہوں اور مساجد میں نماز پڑھنے کے لئے نمازی ترس رہے ہوں خصوصا رمضان المبارک کی عبادتیں اور نمازتراویح کے لئے اس قدر بے چین ہوئے ہوں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شاید اسی لئے دنیا والے بالخصوص مسلمان اس سانحہ کو کبھی نہ بھول پائیں ، رمضان المبارک کے مسائل میں نمازتراویح اور اعتکاف کے مثل نماز عید کی ادائیگی بھی ایک بے چین کرنے والا کربناک مسئلہ بناہوا ہے ۔حکومت کی طرف سے خیرخواہی کی بجائے اس موقع سے مسلمانوں کو مزید کرب والم کا خوف ودہشت ہے ، نہ جانے کہاں کہاں بھیڑ اور کوروناکے نام پر مسلمانوں کوظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے ؟ اس لئے ہمیں پہلے سے ہی چوکنا رہناچاہئے اور دشمن طاقت کو کوئی موقع مہیا نہ ہو ایسا کوئی ٹھوس منصوبہ ہر علاقہ کے اہل علم وخرد کوبنانا چاہئے۔
لاک ڈاؤن کی صورت میں سوال اپنی جگہ بیحد اہم ہے کہ مسلمان عید کی نماز کہاں اور کیسے ادا کریں ؟اس لئے اس مسئلے کو بہتر طریقے سے جاننے کے لئے پہلےچند بنیادی مسئلوں کو جاننا ضروری ہے ۔

پہلا مسئلہ : نماز عیدکا حکم :

نماز عیدکے حکم میں ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ احناف کے نزدیک فرض عین، حنابلہ کے یہاں فرض کفایہ اور شافعیہ اور مالکیہ کے یہاں سنت مؤکدہ ہے ۔ شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ نے عیدکی صبح تاخیر سے اٹھنے والے کے حکم میں فتوی دیا ہے کہ عیدکی نماز فرض کفایہ ہے ، بستی کے چند لوگ ادا کرلیں تو بقیہ لوگوں سے گناہ ختم ہوجاتا ہے تاہم دلائل کی روشنی میں احناف کا موقف قوی معلوم ہوتاہے اس لئے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ نماز عیدہر مسلمان مرد پر واجب ہے تاہم عورتوں کے حق میں مستحب ہے، بغیر عذر کے نماز عید سے پیچھے رہ جانے والامرد گنہگار ہوگا ۔ نماز عیدکے وجوب کا موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ،شیخ البانیؒ، شیخ ابن بازؒاورشیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری ؒوغیرہم کا ہے ۔

دوسرامسئلہ : نماز عید کا افضل واول وقت :

نماز عید کا اول و افضل وقت اس کا ابتدائی وقت ہے جو کہ سورج کا ایک نیزہ بلند ہونا ہے ۔جناب یزید بن خمیر الرجی بیان کرتے ہیں:
خرجَ عبدُ اللَّهِ بنُ بُسْرٍ صاحبُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ معَ النَّاسِ في يومِ عيدِ فطرٍ أو أضحَى فأنكرَ إبطاءَ الإمامِ فقالَ إنَّا كنَّا قد فرغنا ساعتَنا هذِه وذلِك حينَ التَّسبيحِ(صحيح أبي داود:1135)
حضرت عبداللہ بن بسررضی اللہ عنہ صحابی رسول لوگوں کے ساتھ عید فطر یا عید اضحٰی کے لیےتشریف لائے توامام کے تاخیر کر دینےکو انہوں نے ناپسند کیا اور کہاکہ ہم تواس وقت فارغ ہو چکے ہوتے تھےیعنی اشراق کے وقت۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیدین کی نماز کو اول وقت میں ادا کرنا چاہئے اور تاخیر سے بچنا چاہئے تاہم ظہرسےپہلےتک ادا کرلینا جائز ہے۔

تیسرا مسئلہ : نماز عید کی ہیئت اور شعائراسلام کااظہار:

نماز عید کا مقصدشعائراسلام کا اظہار ہے اس لئے پاپیادہ گھروں سے نکلنے،راستے میں اللہ کا ذکر کرتے ہوئے جانے ، عیدگاہ پہنچنے اور صحرامیں مجموعی طور پراور مخصوص کیفیت کے ساتھ بندگی کر کے دوسرے راستے سے پیدل لوٹنے کا حکم دیا گیا ہے جس طرح حج کے فریضے میں اسلامی شعائرکا اظہارہمیں نظر آتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے متعلق ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والاضحى إلى المصلى(صحیح البخاری:956)
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اورعیدالاضحی کے دن (مدینہ کے باہر) عیدگاہ تشریف لے جاتے۔
اس لئے عید کی نمازبستی سے نکل کر باہر صحرا میں ادا کرنا مشروع ہےتاکہ شعائر اسلام کا اظہارہوسکے ، آپ نے بچوں اور حیض والیوں کو بھی عید کے دن اپنے گھروں سے نکلنے کا حکم دیا۔

چوتھا مسئلہ : نماز عید سے متعلق عذر والے مسائل:

٭ عید کی نماز کے لئے عیدگاہ جاتے وقت بارش یا کوئی دوسری رکاوٹ پیدا ہوجائے تو مسجد میں نماز عید ادا کی جاسکتی ہے جیساکہ بارش کی وجہ سے نبی ﷺنے مسجد میں عید کی نماز پڑھی ہے ۔
٭مریض اور عذر والے عیدگاہ نہ جاسکیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہےاور نبی ﷺنے انہیں اپنے گھروں میں نماز عید ادا کرنے کا حکم نہیں دیا ہے لیکن حیض والیوں کو عیدگاہ پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ خیراورمسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکیں ، اس حکم سے عورتوں پرنمازعید کی فرضیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ استحباب کا پتہ چلتا ہے اور ویسے بھی عورتوں کو گھروں میں قرارکاواجبی حکم ہے ۔
٭ اللہ تعالی نے حج کرنے والوں سے بھی عید کی نماز ساقط کردی ہے کیونکہ وہ ایک طرف شعائر اسلام کا اظہار کرہی رہے ہیں دوسری طرف حج کے بڑے دن یوم النحرکو بڑے بڑے اعمال کی انجام دہی کی وجہ سےعید کی ادائیگی میں ان کے لئے مشقت ہے ۔
٭ اگر کسی کونمازعیدکی ایک رکعت مل جائے تو اس نے عید کی نماز پالی اورجو آخری رکعت کے سجدہ یا تشہد میں امام کے ساتھ ملے تو وہ عید کی نماز کی طرح نماز ادا کرلے ۔
٭ اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے جنہوں نے کہا نمازعید کی قضا نہیں صحیح بات نہیں ہے ۔ قضا کا بھی آثار سے ثبوت ملتا ہے ، نیز جس اثر سے قضا کی صورت میں چار رکعت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے اسے شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں منقطع قرار دیا ہے ۔ قضاکرتے ہوئے دو رکعت ہی ادا کرے اور خطبہ عید چھوڑدے۔

لاک ڈاؤن کی صورت میں نما ز عید کی ادائیگی کا طریقہ:

جیساکہ میں نے بتایا کہ نماز عید شعائر اسلام کا اظہار ہے اس لئے اصلا عید کی نماز کے لئے بستی والوں کا اپنے گھروں سے نکلنا اور کسی صحرا میں نماز عید کی ادائیگی کے لئے جمع ہونا ضروری ہے تاکہ بستی والے ایک ساتھ اور ایک جگہ عید کی نماز پڑھ سکیں ۔ موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کا عیدگاہ میں جمع ہونا ممکن نظر نہیں آتاپھر بھی میں اللہ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے اورہمارے لئے گھروں سے نکل کر عیدگاہ میں نماز ادا کرنے کی سبیل پیدا فرمائے۔ آمین
جب لاک ڈاؤن کی صورت حال بنی رہے اور مسلمان عیدگاہ میں جمع نہ ہوسکیں تو ہمیں اس بات پر پہلے یقینی علم حاصل کرلینا ہے کہ کیا مسلمان گاؤں کی جامع مسجد میں جمع ہوسکتے ہیں ؟ اگر یہ صورت ممکن ہوسکے تو عیدگاہ کی بجائے مسلمانوں کو چاہئے بستی کی جامع مسجد میں جمع ہوکراول وقت میں خفیف طورپر نماز عیدمع خطبہ ادا کرلیں کہ اس وقت دشمن کا خطرہ کم ہوگاتاہم احتیاط کے طورپربچوں اور عورتوں کواس صورت میں گھر میں ہی رہنے دیں تو بہتر ہے کیونکہ ان پر نماز عید فرض نہیں ہے۔
اگر بستی کے تمام لوگوں کا جامع مسجد میں بھی جمع ہونا قانونا منع ہو تو گاؤں میں مختلف جگہوں پر گروہ کی شکل میں جمع ہوکر بھی نماز عید ادا کی جاسکتی ہے لیکن اس کام کے لئے پہلے ہمیں اجتماعی شکل میں منصوبہ بنانا ہوگا کہ جماعت کہاں کہاں قائم کی جائے گی اور کہاں پر کون مسئول ہوگا؟ اس منصوبے میں گاؤں کے چھوٹی بڑی مساجد، پارکوں، خالی جگہوں اور میدانوں کو بھی شامل کیاجائےگا۔

عذر کے وقت گھروں میں نماز عید ادا کرنے کا حکم:

٭ عید کی نماز کے لئے عیدگاہ جاتے وقت بارش یا کوئی دوسری رکاوٹ پیدا ہوجائے تو مسجد میں نماز عید ادا کی جاسکتی ہے جیساکہ بارش کی وجہ سے نبی ﷺنے مسجد میں عید کی نماز پڑھی ہے ۔
٭مریض اور عذر والے عیدگاہ نہ جاسکیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہےاور نبی ﷺنے انہیں اپنے گھروں میں نماز عید ادا کرنے کا حکم نہیں دیا ہے لیکن حیض والیوں کو عیدگاہ پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ خیراورمسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکیں ، اس حکم سے عورتوں پرنمازعید کی فرضیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ استحباب کا پتہ چلتا ہے اور ویسے بھی عورتوں کو گھروں میں قرارکاواجبی حکم ہے ۔
٭ اللہ تعالی نے حج کرنے والوں سے بھی عید کی نماز ساقط کردی ہے کیونکہ وہ ایک طرف شعائر اسلام کا اظہار کرہی رہے ہیں دوسری طرف حج کے بڑے دن یوم النحرکو بڑے بڑے اعمال کی انجام دہی کی وجہ سےعید کی ادائیگی میں ان کے لئے مشقت ہے ۔
٭ اگر کسی کونمازعیدکی ایک رکعت مل جائے تو اس نے عید کی نماز پالی اورجو آخری رکعت کے سجدہ یا تشہد میں امام کے ساتھ ملے تو وہ عید کی نماز کی طرح نماز ادا کرلے ۔
٭ اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے جنہوں نے کہا نمازعید کی قضا نہیں صحیح بات نہیں ہے ۔ قضا کا بھی آثار سے ثبوت ملتا ہے ، نیز جس اثر سے قضا کی صورت میں چار رکعت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے اسے شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں منقطع قرار دیا ہے ۔ قضاکرتے ہوئے دو رکعت ہی ادا کرے اور خطبہ عید چھوڑدے۔
لاک ڈاؤن کی صورت میں نما ز عید کی ادائیگی کا طریقہ:
جیساکہ میں نے بتایا کہ نماز عید شعائر اسلام کا اظہار ہے اس لئے اصلا عید کی نماز کے لئے بستی والوں کا اپنے گھروں سے نکلنا اور کسی صحرا میں نماز عید کی ادائیگی کے لئے جمع ہونا ضروری ہے تاکہ بستی والے ایک ساتھ اور ایک جگہ عید کی نماز پڑھ سکیں ۔ موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کا عیدگاہ میں جمع ہونا ممکن نظر نہیں آتاپھر بھی میں اللہ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے اورہمارے لئے گھروں سے نکل کر عیدگاہ میں نماز ادا کرنے کی سبیل پیدا فرمائے۔ آمین
جب لاک ڈاؤن کی صورت حال بنی رہے اور مسلمان عیدگاہ میں جمع نہ ہوسکیں تو ہمیں اس بات پر پہلے یقینی علم حاصل کرلینا ہے کہ کیا مسلمان گاؤں کی جامع مسجد میں جمع ہوسکتے ہیں ؟ اگر یہ صورت ممکن ہوسکے تو عیدگاہ کی بجائے مسلمانوں کو چاہئے بستی کی جامع مسجد میں جمع ہوکراول وقت میں خفیف طورپر نماز عیدمع خطبہ ادا کرلیں کہ اس وقت دشمن کا خطرہ کم ہوگاتاہم احتیاط کے طورپربچوں اور عورتوں کواس صورت میں گھر میں ہی رہنے دیں تو بہتر ہے کیونکہ ان پر نماز عید فرض نہیں ہے۔
اگر بستی کے تمام لوگوں کا جامع مسجد میں بھی جمع ہونا قانونا منع ہو تو گاؤں میں مختلف جگہوں پر گروہ کی شکل میں جمع ہوکر بھی نماز عید ادا کی جاسکتی ہے لیکن اس کام کے لئے پہلے ہمیں اجتماعی شکل میں منصوبہ بنانا ہوگا کہ جماعت کہاں کہاں قائم کی جائے گی اور کہاں پر کون مسئول ہوگا؟ اس منصوبے میں گاؤں کے چھوٹی بڑی مساجد، پارکوں، خالی جگہوں اور میدانوں کو بھی شامل کیاجائےگا۔
عذر کے وقت گھروں میں نماز عید ادا کرنے کا حکم:
لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ عید کے دن بھی مسلمان کہیں پر جمع نہیں ہوسکتے ہیں حتی کہ مسجد میں بھی فقط پانچ افراد کو ہی جمع ہونے کی اجازت ہے ایسے میں کیا لوگوں کے لئے اپنے اپنے گھروں میں عیدکی دوگانہ ادا کرنے کا جواز ہے ؟
گھروں میں نماز عید کی ادائیگی کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض علماء کا کہنا ہے کہ عیدکی نما ز گھروں میں نہیں ادا کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ خاص وصف کے ساتھ مشروع کی گئی ہے جو گھروں میں ادائیگی سے وہ حاصل نہیں ہے ۔یہ موقف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے ۔اس کے برعکس جمہور علماء کہتے ہیں کہ گھروں میں بھی عید کی نماز پڑھنا جائز ہے ان کی دلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل ہے جسے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں تعلیقا ذکر کیا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کوحکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھائیں اور تکبیر کہیں۔(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین)اس اثر پر امام بخاری کے باب سےمعلوم ہوتا ہے کہ کسی کی نمازعید فوت ہوجائے تووہ دورکعت ادا کرسکتا ہے۔
مذکورہ دونوں موقف میں امام ابوحنیفہ اور شیخ الاسلام وغیرہم کی بات زیادہ قوی ہے کہ عید کی نماز گھروں میں ادا نہیں کی جائے گی بلکہ اس میں اسلامی شعائر کا اظہار کیا جائے گاجس کے لئے گھروں سے خروج کرنا اور کسی جگہ پر مسلمانوں کا جمع ہونا ضروری ہے ۔ تاہم میری نظر میں اس مسئلے میں حالات وظروف کے تئیں معمولی وسعت یہ ہے کہ اگر مسلمان عیدگاہ میں یا گاؤں کی جامع مسجد میں اکٹھا نہ ہوسکیں اور نہ ہی گروہی شکل میں نمازعید ادا کرنے کی امکانی صورت ہو توجو لوگ جمہور کے موقف پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں نمازعید ادا کریں ان کو اس عمل سے روکا نہیں جائے گا ، نہ ہی ان کو ملامت کی جائے اور نہ انہیں مبتدع کہا جائے گاکیونکہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے اوراس سلسلے میں قطعی دلیل نہیں ہے۔

لاک ڈاؤن کی صورت میں نما ز عید کی ادائیگی کا طریقہ:

جیساکہ میں نے بتایا کہ نماز عید شعائر اسلام کا اظہار ہے اس لئے اصلا عید کی نماز کے لئے بستی والوں کا اپنے گھروں سے نکلنا اور کسی صحرا میں نماز عید کی ادائیگی کے لئے جمع ہونا ضروری ہے تاکہ بستی والے ایک ساتھ اور ایک جگہ عید کی نماز پڑھ سکیں ۔ موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کا عیدگاہ میں جمع ہونا ممکن نظر نہیں آتاپھر بھی میں اللہ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے اورہمارے لئے گھروں سے نکل کر عیدگاہ میں نماز ادا کرنے کی سبیل پیدا فرمائے۔ آمین
جب لاک ڈاؤن کی صورت حال بنی رہے اور مسلمان عیدگاہ میں جمع نہ ہوسکیں تو ہمیں اس بات پر پہلے یقینی علم حاصل کرلینا ہے کہ کیا مسلمان گاؤں کی جامع مسجد میں جمع ہوسکتے ہیں ؟ اگر یہ صورت ممکن ہوسکے تو عیدگاہ کی بجائے مسلمانوں کو چاہئے بستی کی جامع مسجد میں جمع ہوکراول وقت میں خفیف طورپر نماز عیدمع خطبہ ادا کرلیں کہ اس وقت دشمن کا خطرہ کم ہوگاتاہم احتیاط کے طورپربچوں اور عورتوں کواس صورت میں گھر میں ہی رہنے دیں تو بہتر ہے کیونکہ ان پر نماز عید فرض نہیں ہے۔
اگر بستی کے تمام لوگوں کا جامع مسجد میں بھی جمع ہونا قانونا منع ہو تو گاؤں میں مختلف جگہوں پر گروہ کی شکل میں جمع ہوکر بھی نماز عید ادا کی جاسکتی ہے لیکن اس کام کے لئے پہلے ہمیں اجتماعی شکل میں منصوبہ بنانا ہوگا کہ جماعت کہاں کہاں قائم کی جائے گی اور کہاں پر کون مسئول ہوگا؟ اس منصوبے میں گاؤں کے چھوٹی بڑی مساجد، پارکوں، خالی جگہوں اور میدانوں کو بھی شامل کیاجائےگا۔
عذر کے وقت گھروں میں نماز عید ادا کرنے کا حکم:
لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ عید کے دن بھی مسلمان کہیں پر جمع نہیں ہوسکتے ہیں حتی کہ مسجد میں بھی فقط پانچ افراد کو ہی جمع ہونے کی اجازت ہے ایسے میں کیا لوگوں کے لئے اپنے اپنے گھروں میں عیدکی دوگانہ ادا کرنے کا جواز ہے ؟
گھروں میں نماز عید کی ادائیگی کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض علماء کا کہنا ہے کہ عیدکی نما ز گھروں میں نہیں ادا کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ خاص وصف کے ساتھ مشروع کی گئی ہے جو گھروں میں ادائیگی سے وہ حاصل نہیں ہے ۔یہ موقف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے ۔اس کے برعکس جمہور علماء کہتے ہیں کہ گھروں میں بھی عید کی نماز پڑھنا جائز ہے ان کی دلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل ہے جسے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں تعلیقا ذکر کیا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کوحکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھائیں اور تکبیر کہیں۔(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین)اس اثر پر امام بخاری کے باب سےمعلوم ہوتا ہے کہ کسی کی نمازعید فوت ہوجائے تووہ دورکعت ادا کرسکتا ہے۔
مذکورہ دونوں موقف میں امام ابوحنیفہ اور شیخ الاسلام وغیرہم کی بات زیادہ قوی ہے کہ عید کی نماز گھروں میں ادا نہیں کی جائے گی بلکہ اس میں اسلامی شعائر کا اظہار کیا جائے گاجس کے لئے گھروں سے خروج کرنا اور کسی جگہ پر مسلمانوں کا جمع ہونا ضروری ہے ۔ تاہم میری نظر میں اس مسئلے میں حالات وظروف کے تئیں معمولی وسعت یہ ہے کہ اگر مسلمان عیدگاہ میں یا گاؤں کی جامع مسجد میں اکٹھا نہ ہوسکیں اور نہ ہی گروہی شکل میں نمازعید ادا کرنے کی امکانی صورت ہو توجو لوگ جمہور کے موقف پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں نمازعید ادا کریں ان کو اس عمل سے روکا نہیں جائے گا ، نہ ہی ان کو ملامت کی جائے اور نہ انہیں مبتدع کہا جائے گاکیونکہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے اوراس سلسلے میں قطعی دلیل نہیں ہے۔
عید کی نماز کا طریقہ :
عید کی دورکعت اداکی جائے گی ،امام پہلی رکعت کے لئے تکبیر تحریمہ کہے اور آہستہ دعائے استفتاح پڑھے پھر بلند آواز سےمزید چھ تکبیرات کہے اس کے بعد جہرا سورہ فاتحہ پڑھے، اس کے بعد سورہ ق یا سورہ اعلی یا قرآن سےجو یاد ہو وہ پڑھے پھر رکوع وسجدہ کے بعد دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوپھرپہلے بلند آواز سے پانچ تکبیرات کہے اورجہرا سورہ فاتحہ کی قرات کے بعد سورہ قمر یا سورہ غاشیہ یا کوئی دوسری سورت پڑھے اور رکوع وسجود کے بعد سلام پھیرکر لوگوں کو مختصر خطبہ دے ۔ عید کی قضا پڑھتے وقت اسی طرح دورکعت ادا کریں اور خطبہ چھوڑدیں ،یہ مسنون ہے۔
اللہ تعالی اہل توحید کی اہل شرک وکفر کے شرسے حفاظت فرمائے ، عید کے دن تمام مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ نماز عید ادا کرنے کی توفیق دے اور ملک میں سب کے حق میں امن وامان کی فضا پیدا فرمائے ۔آمین
_______

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button
Close
Close