ٹول بار پر جائیں
خاص خبریں

موجودہ وقت میں علماء کرام کی معاشی پریشانی اور اس کا حل

ازقلم:- اسرارالحق عالیاوی
آفس سکریٹری:- مرکز الدعوہ الاصلاحیہ، زیرومائل، ارریہ، بہار

اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کے قہر سے پریشان ہے، ہر میدان سے جڑے ہوئے افراد کا سخت معاشی نقصان ہوا ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار اور کام دھام مکمل بند ہیں، خاص کر مدارس سے جڑے علماء کرام اور یومیہ مزدوری کرنے والے غریب لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں، لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں، بے روزگار ہیں، بے روزگاری کی وجہ سے ان کی حالت نازک بنی ہوئی ہے، بعض علماء کرام کے ایسے پیغامات ہم تک پہنچے جن کو سن کر دل چھلنی ہو گیا۔ کہیں بچوں کے ساتھ فاقوں کی نوبت آ رہی ہے تو کہیں قرض خواہ دروازے پر کھڑے سخت سست کہہ رہے ہیں۔
ایسے نازک ترین حالات میں علماء کرام کو ذریعہ معاش کے لئے آزادانہ پیشہ اختیار کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔علماء کرام کا بڑا طبقہ غیر فطری ذریعۂ معاش سے وابستہ ہیں جسکا نتیجہ دوسروں کی محتاجی اور حق گوئی سے محرومی ہے۔ ملازمت میں مالک اپنی ضرورت کے پیش نظر اجرت دیتا ہے جس کام کی جتنی زیادہ ضرورت اسکی اتنی ہی زیادہ اجرت ہوتی ہے۔ عوام کے نزدیک “علماء کرام” عوام کی اہم اور اضطراری ضرورت نہیں ہے، بلکہ صرف اختیاری ضرورت ہے۔جس کا دل چاہتا ہے دینی امور کی رہنمائی “علماء کرام” سے حاصل کرتا ہے اور جس کا دل نہیں چاہتا وہ حاصل نہیں کرتا ہے۔ اسی لئے علماء کرام اور ائمہ مساجد کو دنیا کی قلیل ترین اجرت سے نوازا جاتا ہے، اس کا تلخ تجربہ ملک کے موجودہ حالات نے “علماء کرام اور ائمہ مساجد” کو بخوبی کرایا ہے جس کے نتیجہ میں یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ علمائے کرام کو ایسا ذریعہ معاش اختیار کرنا چاہئیے، جس میں وہ عوام الناس کے محتاج نہ رہیں۔
اس لئے حدیث میں بھی کہا گیا ہے کہ ،،تجارت اختیار کرو، عام مسلمانوں کے کندھوں پر بوجھ نہ بنو،، انسان کی بہترین آمدنی وہ ہے جس کو وہ اپنے ہاتھ سے پیدا کریں۔ نہ کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر حاصل کریں۔ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ “ادنی درجہ کا پیشہ اختیار کرنا سوال کرنے سے بہتر ہے”۔
لہذا علماءکرام اپنی قسمت عوام کے ہاتھ فروخت کرنے سے اجتناب کریں اور آزاد ذریعۂ معاش اختیار کریں۔ علماء کرام آزاد پیشہ کے ساتھ بھی دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
بڑی عجیب بات ہے معاشرے میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ اگر کوئی عالم، تجارت کرے تو کہتے ہیں کہ وہ دنیا دار ہو گیا، اگر تجارت نہ کرے اور مسجد یا مدرسے میں بیٹھا رہے تو کہتے ہیں کہ مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے، انکو کوئی کام کاج نہیں ہے، لوگوں سے مانگ کر کھاتا ہے، یعنی کام کرے پھر بھی طنز، کام نہ کرے پھر بھی طنز، کہ کوئی کام دھندھا نہیں کرتے۔ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ آخر علماء کریں تو کریں کیا؟ یعنی اگر مولوی کاروبار کرے تو کہتے ہیں مولوی کیوں کاروبار کر رہا ہے؟ اگر نہیں کرتا تو کہتے مولوی کاروبار کیوں نہیں کرتا؟ اور مولوی بازار میں جائے تو کہتے ہیں مولوی بازار میں کیا کر رہا ہے؟ مولوی دکان کھولے تو کہا جاتا ہے مولوی دنیا دار ہو گیا ہے؟ لہذا گذارش یہ کرنی ہے کہ لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں، اور تجارت کا راستہ اختیار کریں۔ تجارت میں اللہ تعالی نے برکت رکھی ہے، عزت اور خوشحالی رکھی ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام تجارت یا زراعت کے پیشے سے منسلک تھے، اسی لئے اللہ تعالی نے انہیں بہت خوشحالی سے نوازا ہوا تھا، اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ حلال رزق کمانا ہر شخص کا بنیادی حق ہے،
لہٰذا علماء کرام کو تجارت (بزنس) میں اترنے کے لئے اور مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر علماء کرام کونسی تجارت (بزنس) اختیار کرے اور کہاں سے شروع کرے؟ تو اس تعلق سے بزنس کی نوعیت اور اس کے طریقہ کار کے تعلق سے سبھی خود مختار ہیں۔ لیکن چند رہنمائیاں جو ہم سب علماء کے لئے باعثِ رہنما ہو جس کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں جیسے کہ ،کرانہ اسٹور، ٹیکسٹائل (ریڈیمیڈ و ہال سیل کپڑے کی دکان،) آن لائن سرویسیز، ہارڈویئر کی دکان،منیہارہ کی دکان، فینسی اسٹور، جوتے و چپل کے دکان، موبائل شاپ،فرنیچرکی دکان، اناج کی خرید و فروخت، اس کے علاوہ ماحول حالات و ظروف زمان و مکان کے اعتبار سے اختیار کر سکتے ہیں،
بس تحریر کے اخیر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ امت مسلمہ کو بالخصوص علماء طبقہ کو جانی و مالی ہر نوعیت و ناحیت سے مضبوط ہونا چاہئے، جب اس کے پاس دنیا کی تجارت ومعیشت ہوگی، عالمی منڈیاں اسکے کنٹرول میں ہونگی، جس سے طاقت حاصل ہو گی، طاقت سے پھر مسلمان ٹیکنالوجی حاصل کریگا، علم حاصل کریگا، پھر دنیا کی سیاست بھی مسلمانوں کے پاس ہوگی۔
یہ وہ چند گذارشات تھیں جو میں نے آپکے سامنے پیش کیں، اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button
Close
Close