ازقلم:محمد ہاشم فیضی السلفی محو حیرت ہے ماہتاب ابھی اور حیراں ہے آفتاب ابھی کہ رہے ہیں ابھی سبھی سوپر تری قدرت ہے لاجواب ابھی ہاۓ بد قسمتی برائی کی سب کو ہے دکھ رہا ثواب ابھی گھر میں رہئیے جناب آپ ابھی بند ہیں دیکھیۓ کل شاپ ابھی اب محبت ہے جاۓوحشت میں دور بیٹوں سے ہوۓ باپ ابھی ظلم وجبر وستم حیراں ہے ہے گھروندوں میں گھرا پاپ ابھی آدمی آدمی سے ہے کرتا ملنے جلنے سے اجتناب ابھی چین اٹلی ہو یاکہ امریکہ سبکی حالت ہوئ خراب ابھی گرچہ خالی ہے سانسد کی جگہ ہو نہ پائے گا انتخاب ابھی بات کو بھی ترس گۓ ہیں لوگ لگ گۓ سارے منہ پہ جاب ابھی ہو نہ ہو،ہو یہ ثمرۂ عصیاں کرتے رہیۓ نا احتساب ابھی ایسا خود کو بنایۓ ہاشم سر سے ٹل جائے یہ عذاب ابھی