ٹول بار پر جائیں
Uncategorized

زکوٰۃ کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں سماجی، اقتصادی، نفسیاتی اور اخلاقی تناظر میں

صدام رفعت سلفی

ٹی جی ٹی سوشل سائنس، مانو ماڈل اسکول، حیدرآباد ۔

لفظ "زکوٰۃ ” کا معنی ہے بڑھنا، نشوونما پانا اور پاکیزہ ہونا ۔ صاحب قاموس نے زکوٰۃ کی تعریف یوں کی ہے کہ ‘ اپنے مال کو پاک کرنے کی غرض سے جو چیز بھی آپ نکالیں وہ زکوٰۃ ہے،
سورۃ التوبہ آیۃ نمبر 103 میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ "خذ من أموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها ” ترجمہ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئیے، جس کے ذریعہ سے ان کو پاک صاف کر دیں۔
اس ایۃ میں "خذ” امر کا صیغہ ہے جو کہ حکم ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ 83 جگہوں میں "اقیموالصلوۃ” کے ساتھ ساتھ "وآتوالزکواۃ” کو بھی شامل کیے ہیں یعنی نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو، جس طرح نماز ہم پر فرض ہے اسی طرح زکوٰۃ بھی صاحب مال پر فرض ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں "ان الله قد افترض علیھم صدقۃ فی اموالھم… ” متفق علیہ، ترجمہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے،
زکوٰۃ کی مشروعیت کی حکمتوں ومصلحتوں میں سے چند اس طرح ہے،
زکوۃ مالداروں، امیروں اور صاحب ثروت کے نفوس کو بخل ولالچ اور حرص وطمع کی گندگی سے پاک کرتا ، ان کے دلوں کو انانیت، حد سے زیادہ مال کی چاہت اور مال پر ٹوٹ پڑنے اور سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کے جذبے کو صاف کرتا، مال ودولت کے حصول میں بےلگامی، خود غرضی اور بد ترین قسم کی لالچ سے دھوتا ہے۔
بلا شبہ زکاۃ شریعت اسلامیہ کا وہ اہم اصول و ضابطہ حیات ہے جس کے سماج پر معاشی اقتصادی، معاشرتی اور اخلاقی دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جہاں زکوٰۃ پسماندہ اور غریب انسانوں کی گزر بسر کا ایک اہم ذریعہ بنتا ونہی امیر اور مالدار مسلمانوں کے لئے غریبوں کی دادرسی کا جذبہ پیدا کرتا ہے، امیر مسلمان اللہ کے دیے ہوئے اس فضل سے جس نے انہیں نوازا ہے غریبوں کی خبر گیری کرنے کا حوصلہ بھی عطاء کرتا ہے، قارئین کرام آئیے اب ہم زکوٰۃ کے سماجی، اقتصادی، نفسیاتی اور اخلاقی پہلوؤں پر بحث کرتے ہیں، جس میں یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ مزکورہ پہلوؤں پر زکوٰۃ کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سماجی : زکوٰۃ نکالنے سے سماجی رشتہ مضبوط ہوتے ہیں، اس سے سماج کے لوگوں کی محتاجی دور ہوتے ہیں، اس ضمن میں اس حدیث پر غور فرمائیں، جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو سن 10 ہجری میں یمن کے جانب قاضی بنا کر روانہ کیے تھے اور انہیں حکم دیے تھے کہ "توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم ” ترجمہ زکوٰۃ ان کے مالداروں سے وصول کر ان کے فقراء پر خرچ کرنا، اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جس علاقے سے زکوٰۃ وصول کی جائے، اسے اسی علاقے میں خرچ بھی کیا جائے، تاکہ اس سماج میں کوئی غریب بھوکا نہ رہے، یہ زکوٰۃ سماج کو خوش حال بنانے کا ایک ذریعہ بھی ہے تاکہ سماج کے غریب لوگوں میں اعتماد بڑھے، عوام الناس اپنی اولاد کو خشیت املاک میں نہ مارے، اس سے نظام الٰہی پر بھروسہ گہرا ہوتا ہے ۔
اقتصادی : زکوٰۃ نکالنے سے لوگوں کے مال پاک ہو جاتے ہیں، صاحب مال، مال کو وبال جان نہ سمجھ کر اطمینان قلب محسوس کرتے ہیں، اور زکوٰۃ نکالنے سے اقتصادی تعاون ہوتے ہیں، جس سے معاشرے میں اقتصادی بحران نہیں آتے اور اس کے ذریعہ معاشی دائرہ مضبوط ہوتے ہیں ۔مثلاً عوام الناس کے پاس زر ہوں گے تو بازار سے اشیاء کی خریداری کریں گے ، بازار میں اشیاء کی ڈیمانڈ بڑھے گی، ڈیمانڈ بڑھے گی تو فیکٹریوں میں غریب مزدوروں کو روزگار ملیں گے، اس طرح زکوٰۃ ادا کرنے سے اقتصادی ترقی ہوگی۔
نفسیاتی : جب مال دار لوگ اپنے مال کا زکوٰۃ نکالتے ہیں تو وہ نفسیاتی مرض میں مبتلا نہیں ہوتے، و ذہنی طور پر بھی آزاد رہتے ہیں اور انہیں فرحت و شادمانی کا احساس ہوتے ہیں،
اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی نارمل شخص کسی ناگہانی آفت سے دو چار ہوتے ہیں اور کاروبار کو کھو چکے ہوتے ہیں تو ایسے لوگ بھی ذہنی طور پر مطمئن ہوتے ہیں اور نفسیاتی توازن نہیں بگڑتے ، انہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے کسی سے سودی قرض نہیں لینے پڑیں گے ۔ زکوٰۃ بذات خود سودی کاروبار کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
اور اخلاقی : اخلاقی تقاضا بھی یہی ہے کہ کوئی پڑوس بھوکا نہ سوے، جب ہم میں کا ہر شخص قاعدے سے زکوٰۃ ادا کریں گے تو کوئی بھی بندہ بھوکا نہیں سوئیگا، کسی امیر مسلم کا پڑوس بھوکا سو جائے تو یہ ان پر اخلاقی دھبہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر فرشتے لعنت بھی بھیجتے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ انمول نظام حیات ہے جو سماجی رشتے کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی، اقتصادی اور نفسیاتی پہلوؤں کو بہتر بنانے کا ایک حکمت عملی ہے۔

Tags
Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button
Close
Close