آدمی چار نہ ہوں ساتھ ابھی اور ملکر نہ کریں بات ابھی ہو یہ ممکن اگر تو جائیں دور ازواج سے زوجات ابھی دور بیٹوں سے باپ ہوجائیں چھوڑ دیں لوگ مواخات ابھی مسجدیں چھوڑ گھروں میں پڑھلیں سر پہ مڈلاتے ہیں خطرات ابھی منہ میں اک جاپ لگاۓ رہیۓ ہیں اسی طرح کے حالات ابھی شادیاں ٹال دی جائیں کل کو اور نکلیں نہیں بارات ابھی گھر میں ایک دوسرے سے دور رہیں ہیں کرونا کے یہ سوغات ابھی شادیاں ٹل گئی کتنی ہاشم رک گۓ کتنے ہی بارات ابھی میڈیکل اور کرانا سبزی پھل دکاں کی ہے مراعات ابھی پہلے مسجد میں نہیں آتے تھے دکھ رہے ہیں بہت سادات ابھی کل خدا یاد نہیں آتا تھا ہے دعاوں ہی کی برسات ابھی لاک ڈاؤن ہوا اتنا لمبا بڑھ گۓ سب کے مشکلات ابھی غور کرنے پہ ہیں مجبور بہت کچھ تو بدلے ہیں خیالات ابھی موسم پند و نصیحت ہے چھوڑیۓ سارے خرافات ابھی جھوٹ ہوگی نہ اگر میں کہدوں ہے قیامت کی شروعات ابھی ازقلم:محمد ہاشم فیضی السلفی